عارف الحق عارف صاحب سے ملاقات کی ادبی روداد

جمعے کی شام، ساڑھے چھے بجے کے قریب، شکور مرزا صاحب کا فون آیا۔ جب ان کی آواز میں عارف الحق عارف صاحب کی آمد کی خبر سنی، دل میں ایک عجیب سی جنبش پیدا ہوئی، جیسے صدیوں سے انتظار کی جانے والی روشنی اچانک ہمارے سامنے نمودار ہو گئی ہو۔

عارف الحق عارف صاحب، جو ایک مایاناز صحافی، مصنف اور عالمی شہرت یافتہ دانشور ہیں، نہ صرف علمی اور ادبی حلقوں میں معتبر ہیں بلکہ جنگ گروپ اور جیو نیوز سے بھی وابستگی رکھتے ہیں۔ قرآن و حدیث پر ان کا عمیق مطالعہ اور فلسفیانہ بصیرت انہیں منفرد بناتی ہے۔ ان کی علمی و ادبی شناخت یہ بتاتی ہے کہ ان سے ملاقات محض گفتگو نہیں، بلکہ ایک تجربہ اور فیض ہے۔

ابتدائی سلام کے بعد ملاقات کی دعوت دی گئی۔ موبائل نیٹ ورک کی خرابی نے چند لمحے کے لیے رکاوٹ پیدا کی، مگر شکور مرزا صاحب اور طالب گجر صاحب کی عنایت سے رابطہ قائم ہوا۔ طالب گجر صاحب، جو نفیس اور بھلے انسان ہیں، ملاقات کے انتظامات میں مددگار ثابت ہوئے، اور ان کا شکر دل میں ہمیشہ رہے گا۔

دوستوں کو اطلاع دی گئی، اور علمی و ادبی حلقے کے کچھ عزیز حضرات بھی محفل میں شامل ہوئے: ندیم بھائی، ڈاکٹر سہیل صاحب، ماجد حیدری صاحب، ابو زر صاحب، زیشان بھائی اور قدیر صاحب۔ ہر ایک کے چہرے پر وہی تجسس اور خوشی تھی جو ایک علمی جشن میں شامل ہونے والے انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔

ساڑھے نو بجے ہم بلاچرڈستان کے ایک ریسٹورانٹ میں پہنچے۔ عارف الحق عارف صاحب کی آمد نے محفل کو جادوئی کیفیت دے دی۔ ان کی گفتگو میں ہر لفظ فلسفے اور حکمت کی خوشبو لیے ہوئے تھا۔ دوران کھانے، ہم نے ایک فوٹو بھی بنوائی، مگر لمحے کی اہمیت فوٹو سے کہیں بڑھ کر تھی۔ ہر نصیحت، ہر تبصرہ اور ہر سوال کا جواب ایک درس، ایک تجربہ اور ایک مشعل کی مانند تھا۔

موضوعات بے شمار تھے: مذہب، سیاست، فلسفہ، انسانی رویے، اور موجودہ معاشرتی حالات—عارف صاحب کی بصیرت نے ہر موضوع پر روشنی ڈال دی۔ دل چاہا کہ وقت رک جائے، اور ہم گھنٹوں ان کی دانشمندانہ گفتگو سے فیض یاب ہوتے رہیں، مگر وقت کی گھڑی بے رحم تھی۔

ریسٹورانٹ کی بندش کے بعد بھی ہم کچھ دیر اور بیٹھے رہے، گویا محفل کی روشنی کو اپنی یادوں میں محفوظ کر رہے ہوں۔ فوٹو سیشن کے بعد، عارف الحق عارف صاحب کو الوداع کہنا پڑا۔ دل بھاری تھا، مگر ذہن علم و حکمت سے مالا مال۔ دعا یہ تھی کہ دوبارہ موقع ملے اور آئندہ دیگر دوست بھی ان کی علمی بصیرت اور صحافتی تجربات سے مستفید ہوں۔

یہ ملاقات صرف ایک محفل نہیں تھی، بلکہ ایک فسانوی سفر تھا—ایک سفر جہاں ہر لمحہ قیمتی، ہر نصیحت زندگی بدل دینے والی، اور ہر گفتگو دل و دماغ کے لیے روشنی کا سرچشمہ تھی۔ عارف الحق عارف صاحب کی شخصیت نے یہ واضح کر دیا کہ حقیقی دانشمند وہ ہے جو علم، تجربات اور فکری بصیرت کو بانٹ کر لوگوں کے دلوں میں روشنی پیدا کرے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More