پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ، عقیدت اور دفاعی رفاقت کا نیا عہد

دنیا کے نقشے پر کچھ تعلقات ایسے ہوتے ہیں جو محض سیاسی ضرورتوں کے بطن سے نہیں جنم لیتے، بلکہ ان کی جڑیں تہذیب، مذہب اور تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا تعلق انہی میں سے ایک ہے۔ یہ تعلق اس دن شروع نہیں ہوا جب دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے، بلکہ یہ اس دن شروع ہوا جب برصغیر کے مسلمانوں نے حجاز مقدس کی خاک کو اپنی روح کا قبلہ مانا۔ ان کے دلوں کی دھڑکنیں مکہ اور مدینہ کے میناروں سے ہم آہنگ تھیں، اور آج بھی ہیں۔
یہ جو حالیہ دفاعی معاہدہ ہوا ہے، یہ کوئی اچانک پیدا ہونے والا فیصلہ نہیں۔ یہ آٹھ دہائیوں کے سفر کا ایک پڑاؤ ہے۔ ایک ایسا سفر جس میں کربلا کے صبر کی خوشبو بھی ہے اور بدر کے عزم کی گونج بھی۔ پاکستان کی فوجی تاریخ میں سعودی عرب کے ساتھ تعاون ایک مضبوط ستون کی مانند رہا ہے۔ پاکستانی افواج نے سعودی زمین پر حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے خدمات انجام دیں، سعودی افواج نے پاکستان کے ساتھ عسکری تربیت اور مشقوں میں شرکت کی۔ یہ سب محض فوجی کارروائیاں نہیں تھیں بلکہ ایک دوسرے کے دل میں جگہ بنانے کی روایتیں تھیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کا شاہ سلمان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار اور محمد بن سلمان کی گرمجوشی، محض پروٹوکول کی زبان نہیں تھی۔ یہ دو قوموں کے درمیان محبت اور اعتماد کا مکالمہ تھا۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ خطے میں پیدا ہونے والے طوفانوں کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے لیے بندرگاہ ہیں۔
اعلامیے میں جو شق شامل کی گئی کہ کسی بھی ملک پر حملہ دونوں ممالک پر حملہ تصور ہوگا، یہ شق اس تعلق کو عسکری اتحاد سے آگے لے جاتی ہے۔ یہ دوستی کو شہ رگ کی حفاظت کے برابر رکھتی ہے۔ یہ اعلان ہے کہ اگر کسی نے ایک کو للکارا تو دوسرا خاموش نہیں رہے گا۔ یہ محض عسکری معاہدہ نہیں بلکہ دلوں کا معاہدہ ہے۔
یہ دفاعی شراکت داری دراصل ایک بڑے خواب کا حصہ ہے — ایسا خواب جس میں امتِ مسلمہ بکھرنے کے بجائے جڑتی ہے، کمزور ہونے کے بجائے طاقت پکڑتی ہے، اور خوف کے بجائے اعتماد سے جیتی ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب نہ صرف اپنے عوام کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں بلکہ ایک بڑے فلسفے کو عملی شکل دے رہے ہیں: امن کی حفاظت محض فوجی طاقت سے نہیں ہوتی، بلکہ عزم، یکجہتی اور مشترکہ حکمتِ عملی سے ہوتی ہے۔
یہاں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی اور سفارتی امکانات کے نئے دروازے کھولتا ہے۔ سعودی کے ساتھ پاکستان کی معاشی ترقی کے خواب کو ہم آہنگ کرنا، دونوں ملکوں کے عوام کو ایک نئے سفر پر 2030عرب کے وژن لے جا سکتا ہے۔ دفاعی تعاون محض جنگ کے دنوں کے لیے نہیں، بلکہ امن کے دنوں میں بھی نئے صنعتی منصوبے، دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور نوجوان نسل کے لیے روزگار پیدا کرے گا۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کردار اس سارے عمل میں کلیدی رہا۔ ان کی شخصیت پاکستان کی عسکری روایت کا تسلسل بھی ہے اور مستقبل کا نقشہ بھی۔ ان کی قیادت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ پاکستان اپنی عسکری پوزیشن کو مضبوط کرے لیکن اس طاقت کو جارحیت کے بجائے حفاظت اور استحکام کے لیے استعمال کرے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More