
انسانیت کا مشترکہ مستقبل
| آج مختلف مسائل اور تنازعات سے دوچار دنیا کو دیکھا جائے تو “بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج” کی قدر کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔اس تصور کا مطلب یہی ہے کہ ہر ملک کا مستقبل ایک دوسرے سے قریبی طور پر جڑا ہوا ہے اور لوگوں کے دکھ اور سکھ سانجھے ہیں۔ اس سیارے کو ایک ہم آہنگ خاندان میں تبدیل کرنا اور دنیا بھر کے لوگوں کی بہتر زندگی کی خواہش کو حقیقت میں بدلنا ایسے معاشرے کی تعمیر کے مقاصد ہیں۔مارچ 2013 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے ماسکو اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں خطاب کے دوران پہلی مرتبہ انسانی تہذیب کی سمت سے متعلق چین کے اس تصور سے دنیا کو آگاہ کیا تھا۔انہوں نے واضح کیا کہ انسانیت ایک ہی گلوبل ولیج میں رہتی ہے جہاں تاریخ اور حقائق آپس میں مماثل ہیں،اسی باعث مشترکہ مستقبل کا حامل معاشرہ تیزی سے ابھرا ہے جس میں ہر ایک کے پاس کچھ “شیئر” دوسروں کا بھی ہے۔ حقائق کے تناظر میں پچھلی دہائی میں ” بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر” کا خیال ایک تصور سے حقیقی عمل کی جانب بڑھ چکا ہے۔اس دوران خیالات کو مزید ترقی دی گئی ہے اور نظریاتی نظام کو مکمل کیا گیا ہے۔صدر شی نے کئی اہم مواقع پر کلیدی تقاریر کی ہیں اور اس تصور سے متعلق بین الاقوامی برادری کی تفہیم کو گہرا کرنے اور منظم طور پر اس کی وضاحت جاری رکھی ہے۔ستمبر 2015 میں شی جن پھنگ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70 ویں اجلاس کے عام مباحثے میں اس تصور کے مفہوم کو مکمل طور پر واضح کیا، انہوں نے مساوی شراکت داری قائم کرنے اور ایک منصفانہ “سیکورٹی پیٹرن” بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔شی جن پھنگ نے کہا کہ ہمیں ایسی شراکت داریاں قائم کرنی چاہئیں جن میں ممالک باہمی مشاورت اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ برابری کا برتاؤ کریں اور ایک ایسا سیکیورٹی پیٹرن تشکیل دیں جس میں شفافیت اور انصاف شامل ہو۔انہوں نے کھلے، جدت طراز اور جامع ترقی کے امکانات پر زور دیا جو سب کو فائدہ پہنچائیں اور تنوع اور شمولیت میں ہم آہنگی کے حامل بین التہذیبی تبادلوں پر زور دیا۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ صدر شی کے اس تصور کو عالمی سطح پر نمایاں پزیرائی ملی ہے اور چین کے روایتی دوست ممالک سے لے کر تعاون پر مبنی شراکت داروں تک، ہمسایہ ممالک سے لے کر دنیا تک، دوطرفہ تعلقات سے لے کر کثیر الجہتی مسائل تک، “بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر” کے خیال نے عملی طور پر تیزی سے جڑیں پکڑیں ہیں اورٹھوس نتائج حاصل کیے ہیں۔ستمبر 2016 میں جی 20 سمٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران شی جن پھنگ نے کہا کہ اقتصادی گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی “جزیرہ” باقی دنیا سے مکمل طور پر کٹا ہوا نہیں ہے۔گلوبل ولیج کے ارکان کی حیثیت سے ہمیں بنی نوع انسان کے مشترکہ مستقبل کے بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شراکت داری جی 20 کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور تمام ممالک کا انتخاب ہے کیونکہ وہ عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مل کر کھڑے ہیں۔اسی طرح انہوں نے جنوری 2017 میں اقوام متحدہ کے جنیوا دفتر میں بین الاقوامی تعلقات میں جمہوریت کو فروغ دینے اور کسی ایک یا متعدد ممالک کی بالادستی کو مسترد کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کو مل کر دنیا کے مستقبل کی تشکیل کرنی چاہیے، بین الاقوامی قوانین وضع کرنے چاہئیں، عالمی معاملات کا انتظام کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ترقی کے نتائج سب کے لیے مشترک ہوں۔ یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ عالمی میدان میں ، چین انسانی صحت ، انسانیت اور فطرت ، سائبر اسپیس ، جوہری سلامتی ، کرہ ارض پر زندگی ، سمندر ، عالمی ترقی اور انسانی سلامتی جیسے شعبہ جات میں ہم نصیب سماج کی تعمیر کی وکالت کرتا ہے ، جو دنیا بھر کے لوگوں کے عمومی مطالبات کی ترجمانی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس نے تیزی سے وسیع تفہیم اور حمایت حاصل کی ہے۔اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے اکتوبر 2017 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا (سی پی سی) کی 19 ویں قومی کانگریس میں شی جن پھنگ نے واضح کیا کہ چین “بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کی تعمیر” کی ترقی کا حامی ہے اور اس نے عالمی گورننس سسٹم کے ارتقاء کی حوصلہ افزائی کی ہے۔انہوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اس مقصد کی تکمیل کی خاطر مل کر کام کریں، ایک کھلی، جامع، صاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کریں جس میں دیرپا امن، عالمگیر سلامتی اور مشترکہ خوشحالی ہو۔اکتوبر 2022 میں شی جن پھنگ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ چین انسانیت کے مشترکہ مستقبل کے حامل معاشرے کو فروغ دینے کے لئے وقف ہے ، عالمی امن کو برقرار رکھنے اور مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لئے پر عزم رہے گا۔دیکھا جائے تو انسانی معاشرے کی بہبود اور دنیا کی پرامن ترقی کو فروغ دینے کے لیے چینی صدر کا یہ تصور انسانیت کی مشترکہ ترقی کو آگے بڑھانے میں ایک نمایاں خدمت ہے ۔ |
Abrar Ahmed is not just a journalist — he is a chronicler of his time. A Kashmiri journalist, columnist, novelist, and author, he has spent his life wrestling with ideas, questioning power, and giving voice to the voiceless. Armed with a Master’s degree in International Law, he brings intellectual depth and moral clarity to every piece he writes. His education at the University of Azad Kashmir Muzaffarabad and Quaid-i-Azam University shaped his analytical mind, but it is his lived experience that sharpened his pen.
Abrar has been a tireless campaigner for human rights, equality, and justice, speaking out against oppressive systems of governance and entrenched corruption in many Asian countries. He has consistently raised his voice for the deprived and oppressed people of Kashmir, making their struggle for dignity and freedom heard on global platforms.
Today, he resides in Dublin, Ireland, where his perspective has widened, allowing him to view Kashmir’s pain and the world’s conflicts through a sharper, more global lens.
He is the founder of the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and the Daily Sutoon Newspaper — institutions built not just to inform, but to challenge, to provoke, to awaken. His humanitarian vision led to the creation of the Save Humanity Foundation, a reflection of his belief that words must lead to action.
His books are not mere collections of pages — they are manifestos of conscience:
Tehreek-e-Azadi ke Azeem Surkhaik — a tribute to those who gave everything for freedom.
Corruption ke Keerhay — a fearless dissection of the rot eating away at society.
Masla-e-Kashmir ka Hal: Aalmi Aman ka Rasta — a bold attempt to chart a path to peace.
Pakistan and Azad Kashmir Political System and New System Needed — a demand for reform, justice, and a future worthy of its people.
Through his textbooks Modern Community Development Ideas and Basic Journalism, Abrar has shaped generations, giving young minds the tools to see the world critically and act with purpose.
Born on March 19, 1982, Abrar Ahmed stands as a voice of resistance and renewal. His work is not just journalism — it is an ongoing struggle for truth, for peace, and for a just society. To read him is to confront the questions we are too often afraid to ask, and to believe, even in dark times, that words can still change the world.