
ایران، پاکستان اور نئی سرحدی حکمتِ عملی: اعتماد سازی یا وقتی مصافحہ؟
صدائے حق
تحریر: ابرار احمد
بین الاقوامی تعلقات میں ہمسائیگی ایک ایسی جغرافیائی، تہذیبی اور سیاسی حقیقت ہے جو تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی صرف ایک خطِ سرحد تک محدود نہیں بلکہ یہ دو قوموں کے تاریخی، ثقافتی، دینی اور سٹریٹیجک رشتے کا تسلسل ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہمسائیگی آج کے بدلتے ہوئے عالمی، علاقائی اور داخلی تناظر میں ایک پائیدار دوستی میں ڈھل چکی ہے؟ یا ہم آج بھی ماضی کی اس دھند میں قید ہیں جہاں اعتماد محض بیانات کی زینت تھا اور تعلقات کی بنیاد وقتی مصالحوں پر کھڑی کی جاتی رہی؟
ایران اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک غیر مستقل ارتقائی سفر ہے جس میں کبھی گرم جوشی غالب رہی اور کبھی سرد مہری۔ 1947 کے بعد ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم کیا۔ شاہِ ایران محمد رضا پہلوی نے پاکستان کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی و تجارتی روابط قائم ہوئے۔ مگر انقلابِ ایران (1979) کے بعد یہ تعلقات ایک نئے موڑ پر آ گئے۔ شیعہ-سنی تفریق کے عالمی تناظر، سعودی اثر و رسوخ، اور افغان جہاد کے تناظر میں ایران اور پاکستان ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرتے چلے گئے
جولائی 2025 میں پاکستانی وزیر داخلہ محسن نقوی کا دورۂ ایران بظاہر ایک رسمی سفارتی سرگرمی ہے، مگر اس کا وقتی تناظر کچھ اور کہتا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران دونوں ممالک کی سرحدوں پر کشیدگی بڑھی، اسمگلنگ میں اضافہ ہوا، ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے مبینہ طور پر پاکستانی سرحد میں دراندازی کی، اور جیش العدل جیسے عناصر کی کارروائیاں دونوں ممالک کے تعلقات میں زہر گھولتی رہیں۔ ان تمام عوامل کے ہوتے ہوئے محسن نقوی کا دورہ ایک وقتی سفارتی مصلحت ہے یا واقعی یہ تعلقات کی نئی بنیاد رکھنے کا لمحہ؟
پاکستان اور ایران کی سرحد بلوچستان میں واقع ہے جو تاریخی طور پر غیر مستحکم، کم ترقی یافتہ اور بداعتمادی کا گڑھ رہی ہے۔ یہاں نہ صرف دہشت گرد عناصر سرگرم ہیں بلکہ منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ بھی عروج پر ہے۔ ایران بارہا پاکستان پر الزام لگاتا رہا ہے کہ جیش العدل جیسے گروہ بلوچستان سے ایران میں داخل ہو کر حملے کرتے ہیں، جبکہ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ایران کی سست سرحدی نگرانی بھی مسائل کو جنم دیتی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تناظر میں گوادر بندرگاہ ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے، جبکہ ایران نے چاہ بہار بندرگاہ کو ہندوستان کے اشتراک سے فعال کرنے کی کوشش کی۔ بظاہر دونوں منصوبے ایک دوسرے کے حریف نظر آتے ہیں، مگر اگر ایران اور پاکستان باہمی تعاون کو ترجیح دیں تو یہ بندرگاہیں نہ صرف علاقائی تجارت کا مرکز بن سکتی ہیں بلکہ وسطی ایشیا اور خلیجی دنیا تک رسائی کا پُل بھی۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی کئی دہائیوں تک سعودی اثر سے متاثر رہی ہے، جس کی وجہ سے ایران کے ساتھ تعلقات میں قربت قائم نہ ہو سکی۔ افغانستان، یمن، اور عراق کے تنازعات میں پاکستان نے غیر جانبداری اختیار کی مگر ایران کو ہمیشہ شکایت رہی کہ پاکستان درپردہ سعودی حمایت کرتا ہے۔ ایسے میں حالیہ سعودی-ایران تعلقات کی بہتری اور چین کی ثالثی ایک نیا موقع فراہم کرتی ہے کہ پاکستان غیر جانب دار اور توازن پر مبنی پالیسی اختیار کرے۔
ایران کی عسکری پالیسی دفاعی ضرور ہے مگر جارحانہ لہجہ اختیار کرتی ہے، جبکہ پاکستان کی عسکری سوچ زیادہ تر مغربی سرحد اور داخلی دہشت گردی پر مرکوز رہی ہے۔ دونوں ممالک کے دفاعی ادارے اگر چاہیں تو انٹیلیجنس شیئرنگ، بارڈر پٹرولنگ، اور مشترکہ تربیت جیسے اقدامات سے سرحدی امن کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ مگر کیا اعتماد کی وہ سطح موجود ہے؟ کیا دونوں ریاستیں اپنی اسٹیبلشمنٹ کو ایک دوسرے کے قریب لانے پر آمادہ ہیں؟
ایران اور پاکستان کے عوام میں مذہبی اور تہذیبی قربت کے باوجود باہمی رابطے کم ہیں۔ طلباء کے تبادلے، سیاحت، ادب، زبان اور فلم کے میدان میں تعاون نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر پاکستان ایران کے ساتھ حقیقی دوستی چاہتا ہے تو عوامی سطح پر اعتماد سازی کو اولین ترجیح دینا ہو گی۔
ایرانی میڈیا پاکستان کو یا تو مکمل طور پر نظرانداز کرتا ہے یا مخصوص تنقیدی زاویے سے دیکھتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں ایران کا ذکر بیشتر اوقات مذہبی یا نظریاتی تنقید کے تناظر میں آتا ہے۔ اس بیانیاتی خلیج کو ختم کیے بغیر نہ تو سرحدی امن ممکن ہے، نہ ہی معاشی یا سیاسی استحکام۔
اگر پاکستان اور ایران ایک دوسرے کو صرف وقتی ضرورت کے تحت نہ دیکھیں بلکہ ایک سٹریٹیجک ساتھی کے طور پر تسلیم کریں تو خطہ ایک نئی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی علاقائی اہمیت، ایران کی توانائی کی ضروریات، اور چین کے ساتھ دونوں کے تعلقات ایک سہ فریقی تعاون کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔
محسن نقوی کا دورۂ ایران ایک علامتی آغاز ہے۔ اس میں امکانات بھی ہیں اور خطرات بھی۔ اگر یہ دورہ محض بیانات کی حد تک محدود رہا، تو یہ ایک اور کھویا ہوا موقع ہو گا۔ مگر اگر دونوں ریاستیں نیت، پالیسی اور عملی تعاون کے ساتھ آگے بڑھیں تو نہ صرف سرحدیں محفوظ ہوں گی، بلکہ یہ تعلقات ایک نئے اسلامی اتحاد کی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا ہو گا: ہم ہمسائے کے ساتھ اخوت کا رشتہ چاہتے ہیں یا محض سلامتی کی حد بندی؟
Abrar Ahmed is not just a journalist — he is a chronicler of his time. A Kashmiri journalist, columnist, novelist, and author, he has spent his life wrestling with ideas, questioning power, and giving voice to the voiceless. Armed with a Master’s degree in International Law, he brings intellectual depth and moral clarity to every piece he writes. His education at the University of Azad Kashmir Muzaffarabad and Quaid-i-Azam University shaped his analytical mind, but it is his lived experience that sharpened his pen.
Abrar has been a tireless campaigner for human rights, equality, and justice, speaking out against oppressive systems of governance and entrenched corruption in many Asian countries. He has consistently raised his voice for the deprived and oppressed people of Kashmir, making their struggle for dignity and freedom heard on global platforms.
Today, he resides in Dublin, Ireland, where his perspective has widened, allowing him to view Kashmir’s pain and the world’s conflicts through a sharper, more global lens.
He is the founder of the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and the Daily Sutoon Newspaper — institutions built not just to inform, but to challenge, to provoke, to awaken. His humanitarian vision led to the creation of the Save Humanity Foundation, a reflection of his belief that words must lead to action.
His books are not mere collections of pages — they are manifestos of conscience:
Tehreek-e-Azadi ke Azeem Surkhaik — a tribute to those who gave everything for freedom.
Corruption ke Keerhay — a fearless dissection of the rot eating away at society.
Masla-e-Kashmir ka Hal: Aalmi Aman ka Rasta — a bold attempt to chart a path to peace.
Pakistan and Azad Kashmir Political System and New System Needed — a demand for reform, justice, and a future worthy of its people.
Through his textbooks Modern Community Development Ideas and Basic Journalism, Abrar has shaped generations, giving young minds the tools to see the world critically and act with purpose.
Born on March 19, 1982, Abrar Ahmed stands as a voice of resistance and renewal. His work is not just journalism — it is an ongoing struggle for truth, for peace, and for a just society. To read him is to confront the questions we are too often afraid to ask, and to believe, even in dark times, that words can still change the world.