عہدے، انا اور انسانیت

صدائے حق

تحریر: ابرار احمد

ریٹائرمنٹ ایک فیصلہ کن موڑ ہے، جہاں انسان ماضی کی تمام مصروفیات، عہدے، پروٹوکول، دفتری دروازے، فائلوں کی سرسراہٹ اور ماتحتوں کی قطاروں سے نکل کر ایک عام شہری کے قالب میں لوٹتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا سب لوٹتے ہیں؟
آج جب ہم ایک مخصوص طبقے کو دیکھتے ہیں جو “ریٹائر” تو ہو چکا ہے، مگر “ریلیز” نہیں ہوا — ان کے گریڈ کا سریا، ان کے لہجے، چال، نشست و برخاست اور حتیٰ کہ نظریں بھی وہی ہیں جیسے ابھی تک وہی بااختیار افسر ہوں، تو افسوس ہوتا ہے۔ ایسے لوگ نہ صرف خود کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں بلکہ معاشرے میں ایک مصنوعی غرور اور بے ربط خوداعتمادی کا بیج بو رہے ہوتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ پولیس کمشنر جو کبھی شہر کے مرکز میں واقع سرکاری بنگلے میں رہتے تھے، آج ایک عام کالونی کے ذاتی مکان میں منتقل ہو چکے ہیں۔ مگر ان کے دروازے پر اب بھی وہی دھاڑ سنائی دیتی ہے، وہی آنکھوں کی تپش، وہی تفاخر بھری خامشی — گویا سماج پر اب بھی ان کی گرفت قائم ہے۔ حالانکہ وقت، جیسے دریا کا بہاؤ، ہر طاقت، ہر عہدے اور ہر آواز کو بہا کر لے جاتا ہے۔
معاشرہ ترقی تب کرتا ہے جب اس کے اہلِ اقتدار عجز، سادگی اور خدمت کے پیکر بنیں۔ مگر ہم نے افسوسناک طور پر یہ منظر زیادہ بار دیکھا ہے کہ طاقت چھن جانے کے بعد بھی انا کا سایہ طویل ہوتا ہے۔ بعض افسران کے لیے عہدہ ایک خدمت نہیں بلکہ خودی کی چوٹی بن جاتا ہے، جس سے اترنا گویا شکست ہوتی ہے۔
یہ رویہ نہ صرف ذاتی زوال کا پیش خیمہ ہے بلکہ معاشرتی عدم توازن کا بھی سبب بنتا ہے۔ جب عام آدمی دیکھتا ہے کہ طاقت کا خمار ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قائم ہے، تو اسے یہ پیغام ملتا ہے کہ اقتدار خدمت نہیں، بلکہ فوقیت اور تفاخر کا ذریعہ ہے۔
ہمیں بطور قوم اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو خدمت کے بعد بھی عوام کے دلوں میں باقی رہتی ہے، نہ کہ وہ جو پروٹوکول کی آواز میں چند لمحوں کے لیے سنائی دیتی ہے۔
آج ضرورت ہے ایسے ریٹائرڈ افسران کی جو اپنے تجربے، سادگی اور تدبر کے ساتھ معاشرتی رہنمائی کریں، غرور کی چھتوں سے نیچے اتریں اور زمین کی خاک میں قدم رکھ کر انسان بنیں — کیونکہ یہی انسانیت کا حسن ہے۔

ابرار احمد
(روزنامہ ستون – کالم: صدائے حق)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More