کشمیر: دو طرفہ کہانی نہیں، عالمی ضمیر کا امتحان

مسئلۂ کشمیر کو دہائیوں سے ایک ایسی سیاسی فائل بنا دیا گیا ہے جس پر گرد تو بہت جمی، مگر انصاف کی روشنائی کم ہی ٹپکی۔ حالیہ دنوں برطانوی پارلیمنٹ کے ویسٹ منسٹر ہال میں منعقدہ خصوصی اجلاس نے ایک بار پھر یہ سوال عالمی ضمیر کے سامنے رکھ دیا ہے کہ آیا کشمیر واقعی محض پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دو طرفہ تنازع ہے، یا پھر یہ ایک ایسا بین الاقوامی مسئلہ ہے جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہیے۔

یہ اجلاس انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر منعقد ہوا—وہ دن جو دنیا کو یاد دلاتا ہے کہ طاقت، مفاد اور سیاست سے بالاتر ہو کر بھی کچھ اقدار ہوتی ہیں۔ اس اجلاس میں تقریباً پچیس برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ کی شرکت محض رسمی کارروائی نہیں تھی، بلکہ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ کشمیر اب بھی عالمی سیاست کے حاشیے پر نہیں، بلکہ ضمیر کے مرکز میں موجود ہے۔

کشمیر کا مقدمہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے جڑا ہوا ہے، جن میں کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ وعدہ نہ پاکستان کا ایجاد کردہ بیانیہ ہے اور نہ ہی کسی وقتی سیاسی ضرورت کا نتیجہ؛ یہ بین الاقوامی قانون اور اخلاقی ذمہ داری کی دستاویز ہے۔ اس کے باوجود، مسئلہ کشمیر کو “دو طرفہ” کہہ کر فائل بند کرنے کی کوششیں دراصل انصاف سے فرار کے مترادف ہیں۔

ہمیش فالکنر کا یہ کہنا کہ کشمیر جنوبی ایشیا کا ایک حساس فلیش پوائنٹ ہے اور دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان واقع ہے، اپنی جگہ درست ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ حساسیت کا اعتراف کافی ہے یا اس کے ساتھ ذمہ داری بھی آنی چاہیے؟ اگر کشمیر واقعی ایک فلیش پوائنٹ ہے تو پھر اسے نظرانداز کرنا، یا محض سفارتی جملوں میں سمیٹ دینا، خطے اور دنیا دونوں کے لیے خطرناک غفلت ہے۔

برطانیہ کی تاریخی حیثیت اس تنازع میں محض ایک مبصر کی نہیں۔ تقسیمِ برصغیر کے وقت جو فیصلے کیے گئے، ان کی بازگشت آج بھی کشمیر کی وادیوں میں سنائی دیتی ہے۔ ایسے میں برطانیہ اگر خود کو غیر جانب دار تماشائی قرار دیتا ہے تو یہ تاریخ سے آنکھ چرانے کے مترادف ہوگا۔ اخلاقی سیاست کا تقاضا ہے کہ برطانیہ اپنے اثر و رسوخ کو محض تجارتی یا سفارتی مفادات تک محدود نہ رکھے، بلکہ انسانی حقوق اور انصاف کے اصولوں کے ساتھ جوڑے۔

کشمیر کا مسئلہ صرف سرحدوں، نقشوں یا قراردادوں کا معاملہ نہیں؛ یہ انسانوں کی زندگیوں، آزادیوں اور وقار کا سوال ہے۔ جب ایک قوم دہائیوں سے اپنے سیاسی مستقبل کے تعین سے محروم ہو، جب اظہارِ رائے جرم بن جائے، اور جب روزمرہ زندگی عسکری نگرانی کے سائے میں گزرے، تو وہاں خاموشی غیر جانبداری نہیں بلکہ شراکتِ جرم بن جاتی ہے۔

ویسٹ منسٹر ہال کا اجلاس ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیر ابھی عالمی ایجنڈے سے خارج نہیں ہوا۔ سوال اب یہ نہیں کہ کشمیر دو طرفہ ہے یا نہیں؛ سوال یہ ہے کہ عالمی برادری کب اس سچ کو عملی سیاست میں بدلنے کی ہمت کرے گی کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے، اور اس کا حل کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ تنازعات طاقت سے دبائے جا سکتے ہیں، مگر ختم نہیں کیے جا سکتے۔ کشمیر کا حل بھی اسی دن ممکن ہوگا جب انصاف، قانون اور انسانی وقار کو مفاد کی سیاست پر فوقیت دی جائے گی۔ اور شاید یہی وہ امتحان ہے جس میں آج عالمی ضمیر کھڑا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More