
ٹاور آف لندن : مقتول ملکہ کی سرکٹی لاش، پراسرار شاہی قلعے کی لرزہ خیز ویڈیو
لندن کے دل میں دریائے ٹیمز کے کنارے ایک ایسا قلعہ ’ٹاور آف لندن‘ موجود ہے جس کی دیواروں میں صرف پتھر نہیں، بلکہ صدیوں کا خون، خوف، اقتدار اور سازشیں پیوستہ ہیں۔
ٹاور آف لندن ایک ایسا مقام ہے جو کسی زمانے میں شاہی طاقت کی علامت ہوا کرتا تھا، پھر جیل بنا، اذیت گاہ بنا اور آج دنیا کے سب سے پراسرار مقامات میں شمار ہوتا ہے۔
یہ قلعہ بظاہر شان و شوکت اور گلیمر کا مظہر ہے، جہاں دنیا کے نایاب ترین جواہرات محفوظ ہیں، لیکن اس کے سائے میں المیے، قتل، غداری اور سر قلم کیے جانے کی لرزہ خیز داستانیں دفن ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی ایک ویڈیو رپورٹ کے مطابق ٹاور آف لندن کے موجودہ پہرے دار ریان بارنیٹ بتاتے ہیں کہ وہ 35 محافظوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے مطابق یہاں دنیا کے دو سب سے بڑے ہیرے موجود ہیں، جو شاہی تاجوں میں جڑے ہیں، جبکہ قلعے میں 100 سے زائد نادر اشیا اور 23 ہزار سے زیادہ قیمتی پتھر محفوظ ہیں۔
ٹاور آف لندن وہ مقام ہے جہاں کم از کم 6 افراد کے سر قلم کیے گئے تھے، جن میں ایک ملکہ بھی شامل تھیں۔ انگلستان کے طاقتور بادشاہ ہنری ہشتم نے اپنی ہی ملکہ این بولین کو غداری کے الزام میں اسی قلعے میں موت کی سزا دلوائی۔
کہا جاتا ہے کہ اس دور میں عموماً کلہاڑی سے سر قلم کیا جاتا تھا، جس کے تصور نے ہی ملکہ کو خوفزدہ کردیا تھا۔ این بولین نے اپنے شوہر کو خط لکھ کر التجا کی کہ ان کا سر فرانسیسی طریقے سے قلم کیا جائے، جہاں تلوار استعمال کی جاتی تھی۔ بادشاہ نے یہ درخواست مان لی اور ایک ماہر تلوار باز کو بلا کر ملکہ کا سر قلم کروا دیا۔
یہ قلعہ صرف سزاؤں کی جگہ نہیں تھا بلکہ شاہی قیدیوں کے لیے جیل بھی تھا، جہاں شہزادے، امراء اور سیاسی مخالفین قید رکھے جاتے تھے۔

آسیب زدہ قلعہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹاور آف لندن کے ساتھ عجیب و غریب کہانیاں جڑتی چلی گئیں، غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس 900 سال پرانے قلعے میں نہ صرف انسان بلکہ ایک زمانے میں خطرناک جانور بھی قید رکھے جاتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ٹاور کو دنیا کے سب سے زیادہ آسیب زدہ مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ آج بھی یہاں کام کرنے والے محافظ اور سیاح بھوتوں اور بدروحوں کو دیکھنے کے دعوے کرتے ہیں۔

بھٹکتی بدروحیں
کہا جاتا ہے کہ ٹاور میں سب سے پہلے نظر آنے والا بھوت تھامس اے بیکٹ کا تھا۔ مارٹن ٹاور میں ایک ریچھ کی شکل کی بدروح کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے دیکھ کر ایک محافظ خوف سے جان کی بازی ہار گیا۔
خونی ٹاور میں دو کم سن شہزادوں ایڈورڈ پنجم اور رچرڈ کی روحوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، جنہیں ان کے چچا ریچرڈ سوم نے قتل کروایا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں بھائی آج بھی اپنے کمرے میں دکھائی دیتے ہیں۔
وائٹ ٹاور میں وائٹ لیڈی نامی بھوت کو بالکونی پر ٹہلتے دیکھا گیا ہے، جبکہ ویکفیلڈ ٹاور میں بادشاہ ہنری ششم کی روح کے بھٹکنے کی کہانیاں مشہور ہیں۔
ٹاور گرین وہ جگہ ہے جہاں کبھی پھانسیاں دی جاتی تھیں، اور آج بھی اس مقام پر ایک عجیب سی خاموش دہشت محسوس کی جاتی ہے۔

سرکٹی ملکہ کی آہٹ
ٹاور کا سب سے خوفناک اور مشہور بھوت ملکہ این بولین کا مانا جاتا ہے، جو مبینہ طور پر سرکٹی لاش کی صورت میں قلعے کے صحن میں ٹہلتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے علاوہ اربیلا اسٹیواٹ، لیڈی جین گرے اور مارگریٹ پول کی روحوں کے بھی یہاں بھٹکنے کے دعوے ہیں۔
یہاں تک کہ پارلیمنٹ کو بم سے اڑانے کی سازش کرنے والا بدنام زمانہ مجرم گائے فاکس بھی اپنی زندگی کے آخری ایام اسی قلعے میں قید رہا۔
ٹاور آف لندن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماضی کی کہانیاں کبھی مرتی نہیں، یہ قلعہ صرف ایک سیاحتی مقام نہیں، بلکہ خوف، طاقت، محبت اور بےرحمی کی زندہ داستان ہے۔
Abrar Ahmed is not just a journalist — he is a chronicler of his time. A Kashmiri journalist, columnist, novelist, and author, he has spent his life wrestling with ideas, questioning power, and giving voice to the voiceless. Armed with a Master’s degree in International Law, he brings intellectual depth and moral clarity to every piece he writes. His education at the University of Azad Kashmir Muzaffarabad and Quaid-i-Azam University shaped his analytical mind, but it is his lived experience that sharpened his pen.
Abrar has been a tireless campaigner for human rights, equality, and justice, speaking out against oppressive systems of governance and entrenched corruption in many Asian countries. He has consistently raised his voice for the deprived and oppressed people of Kashmir, making their struggle for dignity and freedom heard on global platforms.
Today, he resides in Dublin, Ireland, where his perspective has widened, allowing him to view Kashmir’s pain and the world’s conflicts through a sharper, more global lens.
He is the founder of the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and the Daily Sutoon Newspaper — institutions built not just to inform, but to challenge, to provoke, to awaken. His humanitarian vision led to the creation of the Save Humanity Foundation, a reflection of his belief that words must lead to action.
His books are not mere collections of pages — they are manifestos of conscience:
Tehreek-e-Azadi ke Azeem Surkhaik — a tribute to those who gave everything for freedom.
Corruption ke Keerhay — a fearless dissection of the rot eating away at society.
Masla-e-Kashmir ka Hal: Aalmi Aman ka Rasta — a bold attempt to chart a path to peace.
Pakistan and Azad Kashmir Political System and New System Needed — a demand for reform, justice, and a future worthy of its people.
Through his textbooks Modern Community Development Ideas and Basic Journalism, Abrar has shaped generations, giving young minds the tools to see the world critically and act with purpose.
Born on March 19, 1982, Abrar Ahmed stands as a voice of resistance and renewal. His work is not just journalism — it is an ongoing struggle for truth, for peace, and for a just society. To read him is to confront the questions we are too often afraid to ask, and to believe, even in dark times, that words can still change the world.