فیس بک پر کن موضوعات کو چھیڑنے سے پرہیز کرنی چاہیے؟

سماجی رابطوں کے مقبول ترین پلیٹ فارم پر ہر طبقہ ہائے فکر کے صارفین اپنا زیادہ تر وقت گزارنا پسند کرتے ہیںـ اس مقصد کے تحت وہ دن یا رات کے کسی بھی پہر اپنی سوچ، خیالات، کیفیات، سماجی، سیاسی و مذہبی رجحانات اور نظریات کو الفاظ، موسیقی، ویڈیو، تصاویر کی صورت اپ لوڈ کرتے ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی سوشل میڈیا کمپنی فیس بک درحقیقت اظہارِ رائے کا ایک بہترین ذریعہ سمجھی جاتی ہےـ جہاں مرد و زن، ٹین ایج لڑکے، لڑکیاں کتھارسس کے لیے اپنے دل کی بات ساری دنیا کے سامنے باآسانی پہنچا سکتے ہیں کیونکہ یہاں لوگوں سے رابطہ نہ صرف آسان ہے بلکہ آپ کی بات فوراً سنی بھی جاتی ہے بلکہ ردِعمل بھی جلد ملتا ہے اور رائے عامہ ہموار ہونے میں بھی مدد ملتی ہےـ

فیس بک پر جہاں آپ صرف اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں وہیں آپ اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے فیس بک پیجز اور گروپس بنانے کی سہولت بھی رکھتے ہیں۔ تاہم پیجز کی نسبت گروپ زیادہ مقبول ہیں کیونکہ بعض اوقات اپنا نجی مسئلہ فیس بک وال کے بجائے ان نجی گروپس میں رازداری کی غرض سے شیئر کرنا مناسب رہتا ہے ـ

دیکھا جائے تو فیس بک وال یا نجی گروپ خواتین کے لیے ایک نعمت ہیں کیونکہ یہ مختلف پس منظر، ثقافت اور علم و قابلیت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک پلیٹ فارم دیتا ہے۔ یہاں وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے مسائل، گھریلو ٹوٹکے، امورِ خانہ داری، بچوں کی بہتر پرورش جیسے عمومی مسائل کے حل کے حوالے سے مشورہ کرسکتی ہیں۔

دوسری طرف اگر وہ حمل اور اس سے جڑے معاملات، کسی سرگرمی کے لیے اکٹھا ہونے، طلاق کے بعد زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور دوسری شادی میں ہونے والی پیچیدگیوں پر اگر اپنی فیس بک وال پر کھل کر بات نہ کرسکیں اور چاہتی ہوں کہ صرف خواتین تک ہی بات پہنچے اور دل بھی ہلکا ہوجائے تو ان نجی گروپ سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور وہاں سیر حاصل بحث کے ذریعے گائیڈ لائن بھی لے سکتی ہیںـ

سب سے بڑھ کر وہ معاملہ جو گھر میں یا دوستوں میں براہِ راست بیان کرنے سے نقص امن کا خطرہ ہو اس سے بچت ہوجاتی ہے اور مفت کا مشورہ بھی مل جاتا ہےـ اس مقصد کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اپنے اصل نام کے ساتھ آئیں بلکہ وہ گروپ پالیسی کے تحت اپنا نام یا شناخت ظاہر کیے بغیر بھی اپنا مسئلہ بیان کرسکتی ہیںـ

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک پہلو ایسا بھی ہے جہاں پر کچھ خواتین ان گروپس میں وہ باتیں بھی شیئر کردیتی ہیں جو ان کی نجی زندگی کے معاملات سے تعلق رکھتی ہیں۔ مثلاً کچھ خواتین شادی شدہ زندگی کی تلخیاں شیئر کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سی ایسی لڑکیاں جن کی شادی ہونے والی ہوتی ہے یا جن کے رشتے آئے ہوتے ہیں وہ ایسی تحریریں پڑھنے کے بعد تذبذب کا شکار ہوجاتی ہیں یا شادی کے نام پر خوفزدہ ہوکر نفسیاتی مسائل کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ کئی بار ایسی تحریروں پر غیر شادی شدہ لڑکیوں نے اپنے

تحفظات کا اظہار باقاعدہ اپنی وال پر بھی کیا ہے جس سے ایک نئی بحث جنم لیتی ہے ـ

اس کے علاوہ ایک اور تاریک پہلو جو مشاہدے میں آیا ہے وہ یہ کہ فیس بک وال ہو یا گروپس، جب کچھ خواتین اپنے حقیقی رشتوں میں تعلق کی بدصورتی پر لکھتی ہیں تو پھر چاہے وہ پوسٹ فرینڈز آپشن پر ہی کیوں نہ ہو، لیکن جب اس پر مباحثہ ایک بار شروع ہوجائے تو اسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔

قاری تحریر پڑھنے کے بعد آپ سے ہمدردی تو جتا سکتا ہے لیکن حقیقت میں آپ کا درد نہیں بانٹ سکتا۔ یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے اور اس کا احساسات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ بناوٹی ہمدردی کا اظہار بھی اس وقت تک متحرک رہتا ہے جب تک آپ ایک دوسرے کی فرینڈ لسٹ میں ہوتے ہیںـ

آپ کے درمیان اگر کسی متنازع موضوع پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوپاتا، تو جہاں مباحثہ تلخی پر ختم ہوتا ہے وہیں آپ کی فیس بک دوستی بھی اختتام پذیر ہوجاتی ہےـ پھر وہی سابقہ فیس بک دوست آپ کی کمزوریوں کا طعنہ اتنا اچانک دیتے ہیں کہ آپ ذہنی طور پر تیار ہی نہیں ہوتے اور اس صدمے میں بار بار سوچتے ہیں کہ اس نے میری زندگی میں پائی جانے والی محرومی کا مذاق سر عام کیسے بنا ڈالا؟

دراصل قصور دوسرے کا نہیں، آپ کا اپنا ہےـ جب شعوری یا لاشعوری طور پر اپنی فیملی کے رویے یا جھگڑے کا تذکرہ پوسٹ بنا کر کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جگہ صرف دوستوں کی نہیں بلکہ دوستی کی آڑ میں شکار کھیلنے والے لوگوں کی بھی ہےـ

فیس بک پر جب ایسی کوئی پوسٹ میرے سامنے آتی ہے تو دل بہت پریشان ہوتا ہے، خاندانی نطام ہمارے سماج میں ویسے ہی بہت زبوں حالی کا شکار ہے، اور جب وہی چیز ہم لکھتے ہیں تو بے شمار پڑھنے والے مزید بدظن ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ فیس بک ذہن سازی کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہےـ

خونی یا قریبی رشتوں پر مبنی بہت سے موضوعات جن پر پہلے بولا نہیں جاتا تھا، اب نہ صرف ان پر کُھل کر لکھا جا رہا ہے بلکہ پڑھنے والے بھی بغیر جھجھکے آپ کے ذاتی معاملات پر اپنی رائے دینے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ دراصل یہ اعجاز بھی آپ کی ہی بدولت ممکن ہواـ آپ موقع نہ دیتے تو وہ آپ کی ذاتی زندگی پر تشریح شروع ہی کیوں کرتے؟

سوال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنے رشتوں اور اس سے منسلک نفرت پر گفتگو کرنا کیا ٹھیک عمل ہے؟ ‌ پڑھنے والوں کے لیے آپ کے خاندانی قصے چٹ پٹی چاٹ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتےـ

کیا ہمیں فیس بک پر کچھ بھی لکھنے سے پہلے دو بار سوچنے کی ضرورت نہیں ہے؟ یا ہمیں کمنٹ، لائیک کے خبط میں کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا؟

ہم لکھاری یہاں بہت کچھ سہہ کر قلم بطور امانت استعمال کرتے ہیں لہٰذا جب بھی کسی سماجی مسئلے پر لکھنے لگیں تو اسے سماجی و اجتماعی تناظر میں لکھیں اور خود سے وابستہ رشتوں کو بیچ چوراہے پر لانے سے اجتناب کریں۔ ممکن ہے کہ آپ کی تکالیف اظہار کی طلب گار ہوں لیکن کچھ باتوں کا اظہار چند پُرخلوص لوگوں تک ہی محدود رکھنا ہوتا ہے۔ ‌ اپنے رشتوں سے منسلک نفرت اور اپنی محرومیوں کے حوالے سے پوسٹ لگانے والوں کو فقط اتنا کہوں گی کہ رشتے بھرم ہوتے ہیں، چادر ہوتے ہیں یہ کمزور یا مضبوط مورچے ہوسکتے ہیں لیکن پناہ گاہیں یہیں کہیں ان کے درمیان ہیں، اس سے باہر کچھ بھی نہیں اور ان کے بغیر بھی کچھ نہیں، گھر کی دہلیز سے باہر فقط سراب ہے۔

ماں باپ، بہن، بھائی کے رشتے اگر خوبصورت نہیں تو اپنی فیس بک کی وال پر انہیں بدصورت بھی مت کیجیے۔ جب آپ نے رہنا بھی انہی کے ساتھ ہے تو ان رشتوں پر مصلحت کا پردہ پڑا رہے تو اچھا ہے، انہیں سوشل میڈیا کے بازار میں رسوا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

میں نے اسی موضوع کے بنیادی خیال کو چند سطور میں لکھ کر صرف یہ جاننے کے لیے اپنی وال پر پوسٹ کیا کہ اس حوالے سے عام آدمی کیا سوچتا ہے؟ زیادہ تر لوگوں نے حمایت کی لیکن چند لوگوں نے ذرا ہٹ کر آرا دیں۔ ان کے مطابق اگر کوئی اپنا نجی معاملہ لکھ کر کتھارسس کرلیتا ہے تو اس میں حرج کیا ہے؟

200 سے 250 کمنٹس میں سے یہ بات صرف 2 سے 3 افراد نے کی، البتہ ایک صاحب جن کا نام تیمور خان ہے، لکھتے ہیں کہ ‘جو آپ کی حمایت کر رہے ہیں ان لوگوں کا تعلق ایک الٹرا کنزرویٹو معاشرے سے ہے۔ جہاں اگر کسی عورت کے ساتھ ریپ بھی ہوجائے تو اسے چپ رہنے کو کہا جاتا ہے۔ اگر وہ عوامی سطح پر ریپ کے بارے میں بول اٹھے تو الٹا وہ مزید بدنام ہوجاتی ہے’۔

یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے مجھے مزید لکھنے پر اکسایا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی کہ سوشل میڈیا اس لحاظ سے انتہائی معتبر ذریعہ رہا کہ وہ عام آدمی کی آواز بنا جس کی داد رسی پہلے کہیں نہیں ہوتی تھی۔ اس کا مسئلہ نہ تو مین اسٹریم میڈیا کی بریکنگ نیوز بنتا تھا اور نہ قانونی کارروائی جلد عمل میں لائی جاتی، لیکن جب ایک غریب آدمی کا معاملہ ہیش ٹیگ کے ذریعے فیس بک وال ٹو وال، گروپس، پیجز پر شیئر ہوتا ہے تو فوراً ایک دباؤ بنتا ہے اور متعلقہ افسران کی طرف سے جلد کارروائی بھی شروع ہوجاتی ہےـ

زینب ریپ کیس اور موٹر وے پر بچوں کے سامنے ایک ماں کا ریپ کیس اس کی اہم مثالیں ہیںـ

جب ان کے لیے سوشل میڈیا سے آواز بلند ہوئی تو مین اسٹریم میڈیا پر بھی اس کی گونج سنائی دینے لگی اور بالآخر عوامی دباؤ کی وجہ سے مجرم قانون کے شکنجے میں آئےـ

یہی وہ وجوہات ہیں کہ میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ اپنی نجی زندگی کے حوالے سے لازماً محتاط رویہ اختیار کریں البتہ اگر کوئی سماجی مسئلہ درپیش ہو تو اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کریں۔

اس طرح ان لوگوں کو بھی پتا چل جاتا ہے جو اس مسئلے کا شکار ہوتے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آتی کہ اسے کس طرح نمٹا جائے؟

یہ بات اب روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے عام آدمی کو بھی اپنے مسائل اجاگر کرنے اور افسرانِ بالا تک پہنچانے میں بہت مدد ملی ہے لہٰذا سوشل میڈیا کو بہتر مقاصد کے لیے استعمال میں لاکر اس کو مثبت انداز میں فروغ دیا جا سکتا ہے اور سماجی مسائل میں کمی لانے کے لیے اس کی فعالیت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

Abrar Ahmed is not just a journalist — he is a chronicler of his time. A Kashmiri journalist, columnist, novelist, and author, he has spent his life wrestling with ideas, questioning power, and giving voice to the voiceless. Armed with a Master’s degree in International Law, he brings intellectual depth and moral clarity to every piece he writes. His education at the University of Azad Kashmir Muzaffarabad and Quaid-i-Azam University shaped his analytical mind, but it is his lived experience that sharpened his pen.
Abrar has been a tireless campaigner for human rights, equality, and justice, speaking out against oppressive systems of governance and entrenched corruption in many Asian countries. He has consistently raised his voice for the deprived and oppressed people of Kashmir, making their struggle for dignity and freedom heard on global platforms.
Today, he resides in Dublin, Ireland, where his perspective has widened, allowing him to view Kashmir’s pain and the world’s conflicts through a sharper, more global lens.
He is the founder of the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and the Daily Sutoon Newspaper — institutions built not just to inform, but to challenge, to provoke, to awaken. His humanitarian vision led to the creation of the Save Humanity Foundation, a reflection of his belief that words must lead to action.
His books are not mere collections of pages — they are manifestos of conscience:
Tehreek-e-Azadi ke Azeem Surkhaik — a tribute to those who gave everything for freedom.
Corruption ke Keerhay — a fearless dissection of the rot eating away at society.
Masla-e-Kashmir ka Hal: Aalmi Aman ka Rasta — a bold attempt to chart a path to peace.
Pakistan and Azad Kashmir Political System and New System Needed — a demand for reform, justice, and a future worthy of its people.
Through his textbooks Modern Community Development Ideas and Basic Journalism, Abrar has shaped generations, giving young minds the tools to see the world critically and act with purpose.
Born on March 19, 1982, Abrar Ahmed stands as a voice of resistance and renewal. His work is not just journalism — it is an ongoing struggle for truth, for peace, and for a just society. To read him is to confront the questions we are too often afraid to ask, and to believe, even in dark times, that words can still change the world.

Facebook
Comments (0)
Add Comment